Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 9


ہاں بھائی کیسا لگا آپ کو اپنا ہوسپیٹل ؟ (سعد نے شاہ رخ سے پوچھا ۔ وہ سب کیفیٹیریا میں بیٹھے تھے ۔سعد،فیروز،شاہ رخ ،تصبیہا اور فائزہ ۔)
بہت اچھا ۔۔۔۔۔ میرے بھائی کی کیا بات۔۔۔۔۔(شاہ رخ نے موصب کا ذکر فخرسے کیا)

ہاں ہاں یہ تو وقت بتائے گا بیٹا ۔(فیروز نے اسے ڈرانا چاہا)

کیوں ڈارا رہے ہو میرے بھائی کو ۔وہ سب کچھ سبھال لے گا ۔۔۔۔(تصبیہا بولی )

ویسے ایک بات بتاو شاہ رخ کہ تم تصبیہا کو آپی کیوں کہتے ہو؟(فاہزہ نے شاہ رخ سے پوچھا )

پہلے شاہ نے تصبیہا کو دیکھا تو وہ مسکرا دی شاہ کو دیکھ کر ۔پھر وہ بولا)

میری ہمیشہ سے ایک خواہش تھی کہ میری بھی بہن ہو ۔جس پر میں حکم چلاوں ،جسے بھائی مجھے ٹریٹ کرتے ہیں ویسے ہی میں اپنی بہن کو ٹریٹ کرنا چاہتا تھا ۔سب اللہ نے میری سن لی اور مجھے آپی دے دی۔۔۔۔(شاہ رخ نے اپنے دل کی بات بتائی )

مگر تصبیہا مگر تصبیہا چھوٹی تو نہیں ہے تم سے ۔پھر تم اس پر حکم کیسے چلاو گے؟(فائزہ نے ایک اور سوال کیا اس سے۔مگر جواب شاہ کی جگہ تصبیہا نے دیا )

بھائی چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے ،وہ بہنوں کے لیے ہمیشہ بڑے ہی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔(اس بات سن کر شاہ رخ نے گردن اکڑا کربیٹھ گیا۔اس کی اس حرکت پر سب ہنسنے لگے۔ پیچھے سے موصب کی آواز پر سب خاموش ہو گئے جو کہ تصبیہا کو دی گئی تھی)

تصبیہا ۔۔۔۔ (اس کی آواز سن کر تصبیہا اٹھی اور بولی)

جی ؟؟؟

اکاونٹ آفس جاہیے اور وہ جو پیپرز آپ کو دیں وہ لے کر میرے آفس میں آیں ۔(وہ حکم سنا کر ،سب پر نگاہ ڈرا کر چلا گیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ رہے پیپرز ۔۔۔(وہ بنا نوک کیے اندر آئی اپنی عادت کہ مطابق اور موصب کی ٹیبل پر پیپرز رکھے )

موصب نے اسے ایسے دیکھا جیسے پتا نہیں کیا گناہ کردیا ہو۔ موصب کو ایسےدیکھتے ہوئے وہ بولی 9

کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہے ہو ؟

(وہ اٹھا اور اس کہ پاس آیا اور بولا )

میں تمہیں یہاں کام کہ لیے لایا ہوں بتاتیں بنانے کہ لیے نہیں لایا ہوں ۔کام کرو کام آہیندہ مجھے تم اس طرح باتیں کرتی نہ دیکھوں ۔(اس کا اشارہ کچھ دیر پہلے والے منظر کی طرف تھا )

ایک کام کرو تم نا میرے سانس لینے پر بھی پابندی لگادو تب تمہیں سکون ملے گا ۔۔ہے ناں ۔(وہ غصے سے کہتی باہر چلی گئی ۔وہ غصے میں ہی جارہی تھی کہ کسی سے بری طرح ٹکرائی ۔۔۔۔)

یا اللہ ۔۔۔۔(تصبیہا سر پکڑ کر بولی ۔)

کیا مصلہ ہے دیکھ کر نہیں چل سکتے ؟(وہ کسی کا غصہ کسی پر نکال رہی تھی)

میں تو دیکھ کر ہی چل رہا تھا مگر لگتا ہے آپ یہ کام سر انجام نہیں دے رہی تھیں ۔۔۔(اس نے تصبیہا کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے کہا)

ہاں ہاں ساری غلطی میری ہی ہے ،مجھے تو لگتا ہے میں نے کہ میرا پیدا ہونا ہی غلطی تھی ۔۔۔۔(وہ اپنی ہی آپ سے بولتی ہوئی چلی گئی ۔۔۔مگر جہانگیر کی نگاہوں نے اس کا پیچھا دور تک کیا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اندر آسکتا ہو؟ (جہانگیر نے موصب کہ کیبن میں جھانکتے ہوئے اجازت چاہی)

جہانگیر ۔۔۔۔۔۔ اندر آو۔۔۔(موسب کرسی سے اوٹھا اور اس کے گلے لگا ۔ )

کیسا ہے یار ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ (موصب نے الگ ہوتے ہوئے پوچھا )

میں ٹھیک ہوں تو بتا کب سے آیا ہوا ہے تو یہاں اور مجھ سے ملنے بھی نہیں آیا ۔(جہانگیر نے اس سے خفا ہوتے ہوئے بولا )

یار بس مصروف اتنا تھا کہ وقت نکالنا ناممکن تھا ۔۔۔۔۔ (موصب نے اسے سچ بتایا )

چل کوئی بات نہیں اب تو ملتےرہیں گے۔ویسے کبتک ہے تو یہاں ؟

یار بس شاہ جیسے ہی سب سبھال لے گا تو میں چلا جاوں گا ۔

شاہ بھی آیا ہوا ہے ؟

ہاں یہاں ہی ہے ۔
گھر کب آرہا ہے ؟

لگاوں گا چکر جلد ۔۔۔۔تم بتاو کیا لوگے چائے یا کوفی ؟

کچھ بھی نہیں بس چلوں گا آفس جانا ہے ۔۔۔۔

(موصب اور جہانگیر کی دوستئ یونیورسٹی میں ہوئی تھی ۔موصب میڈیکل کا اسٹوڈینٹ تھا اور جہانگیر بزنس اسٹوڈینٹ تھا ۔ جہانگیر عالم سردار کا بیٹا تھا ۔ کم موصب بھی نہیں تھا ۔ ان دونوں کی دوستی وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی گئی۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دورازے کی دستک پر موصب دروازہ کھولنے گیا تو شاہ سامنے کھڑا تھا ۔ بھائی سے گلے ملا اور اسے اندر لے آیا ۔۔۔۔)

تمہیں یہاں کا راستہ کس نے بتایا اور رات کے وقت کیوں آئے ہو ی۔یہ علاقہ اس ٹائم خطرناک ہوجاتا ہے۔(موسب نے فکرمندی سے کہا)

آپ کو کیا لگا آپ مجھے ہوسٹیل میں رہنے کا بولیں گے اور گھر کا نہیں بتاہیں گے تو مجھے پتا نہیں چلے گا ۔۔۔اور مجھے ایک بات بتاہیں یہ کس علاقے میں رہ رہیے ہیں آپ ؟جو علاقہ میرے آنے کے لیے خطرناک ہے تو وہ آپ کے اور آپی کے لیے کیسے ٹھیک ہے ؟

(موصب اسے جواب دیتا اس سے پہلے تصبیہا شاہ کی آواز سن کر کچن سے باہر آئی )

آرے شاہ تم ؟ (تصبیہا اسے یہاں دیکھ کر حیران تھی )

کیسی ہیں آپ ؟؟؟

تم یہاں اس وقت کیوں آئے ،یہ علاقہ ۔۔۔۔۔۔(تصبیہا کے لہجے سے فکر صاف تھی ۔وہ بھی موصب کی طرح بولی تو شاہ بولا )

اب آپ بھی بھائی کی طرح بول رہی ہیں ۔اگر میرا آنا برا لگا تو میں چلا جاتا ہوں ۔۔۔۔(شاہ نے فل ڈرامائی انداز میں کہا ۔موصب تصبیہا کو دیکھ رہا تھا جو اس کے لیے فکر مند نظر ارہی تھی)

آرے اسے کیسے چلا جاوں میں تو بس ایسے ہی کہہ رہی تھی ۔خیر بیٹھو ۔۔۔۔

ویسے ایک بات بولوں آپ دونوں ایک جیسے ہی ہیں ۔(شاہ کی بات پر ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ تصبیہا نے نظریں گھوما کر شاہ سے بولی)

تم نے کھانا کھالیا ؟

نہیں ۔۔۔۔

چلو میں کھانا لگارہی ہوں ۔(وہ کہہ کر کچن میں چلی گئی )

تھوڑی دیر میں اس نے کھانا لگایا تو موصب اور شاہ بھی دسترخوان پر بیٹھے ۔ اسنے دم کا قیمہ بنایا تھا ۔)

واہ آپی کمال کردیا ۔۔۔۔(شاہ کھانا کھاتے ہوئے اس کی تعریف کرنا تو جیسے اپنا فرض سمجھتا تھا ۔موصب بولا)

چپ کرکہ کھانے کھاتے ہیں کتنی دفعہ سمجھایا ہےشاہ ۔۔۔(موصب نے اسے چپ کروادیا کیونکہ تصبیہا کی تعریف وہ سن نہیں سکتا تھا)

کھانا کھانے کہ بعد وہ تینوں بیٹھے چائے پہ رہے تھے جب شاہ بولا )

بھائی موم ،ڈیڈ کا بھی آنے کا پروگرام ہے یہاں ۔۔۔(شاہ تو بم ہی بھوڑدیا)

کیا ؟کب؟(موصب نے فورا پوچھا )

پتا نہیں مگر آئیں گے ضرور ۔۔۔(وہ بڑے آرام سے اسے بتا رہا تھا)

چلیں میں نکلتا ہوں۔۔۔(شاہ نے کپ رکھا اور صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا)

ہوسٹل پہنچ کر فون لازمی کردینا مجھے ۔(موصب نے اسے تنبہی کی)

شاہ کے جانے بعد تصبیہا نماز پڑھنے کھڑی ہوگئی ۔ وہ جب نماز پڑھ کر اٹھی تو برتن دھونے لگی ۔صبح سے ہی اس کے سر میں درد ہورہا تھا مگر اب بہت شدید ہورہا تھا ۔ وہ موصب سے نہیں کہنا چاہتی تھی مگر جب اس کی برداشت سے باہر ہوگیا تو اس نے کمرے میں جانے کا سوچا کیونکہ میڈیسن تو موصب کہ ہی ڈرار میں تھیں ۔ وہ کمرے میں گئی تو موصب اندر نہیں تھا ۔واش روم سے پانی گرنے کی آواز ارہی تھی یعنی وہ نہا رہا تھا تو تصبیہا نے شکرکیا اس کی مدد نہیں لینی پڑی ۔وہ نیچے چھک کر ڈرار سے میڈیسن ڈھونڈنے لگی ۔ )

کہاں رکھی ہیں مڈیسن ۔۔وہ منہ میں ہی بڑبڑا رہی تھئ اور ایک ڈرار سے دوسری ۔جب اسے نہیں ملی تو وہ اٹھی اور جیسے ہی مڑی اسے نہیں پتا تھا کہ وہ اس کے پیچھے ہی کھڑا ہے اور وہ موصب سے ٹکرائی اور اس کا پیر مڑ گیا جس کی وجہ سے وہ بیلنس برکرار نہیں رک سکی اور گرتے گرتے بچی کیونکہ موصب نے اسے پکڑکیاتھا ۔تصبیہا کی سانس رک گئی تھی ،موصب کہ اتنا قریب وہ بھی تب جب وہ بنا شرٹ کہ صرف ٹراوزر میں تھا ۔تصبیہا کے دونوں ہاتھ اس کے بازوں پر تھے اور موصب کے ہاتھ اس کی کمر پر تھے ۔ )

یہاں کیا کرہی ہو تم ؟(موصب نے اس سے اسی پوزیشن میں ہی پوچھا )

وہ میں وہ۔۔۔۔(پہلی بار ایسا ہوا تھا جب تصبیہا سے کچھ کہا نہیں جارہا تھا ،وہ کنفیوز سی ہوگئی تھی اور موصب کو پتا نہیں کیوں اس کا یہ گھبرایا ہوا روپ بہت پسند آیا ایسی لیے بات کو لمبا کرنے کہ لیےبولا)

وہ کیا؟؟؟(اس کی آنکھوں میں انکھیں ڈالے اس نے پوچھا تو تصبیہا کو چھوڑانا چاہا تو موصب نے اسے سیدھا کھڑا کردیا مگر پکڑ ابھی بھی برقرار تھی ۔)

میں میڈیسن لینے آئی تھی ۔۔۔۔(اس نے اپنے آپ کو کمپوز کرتے ہوئے کہاٰ)

کس لیے ؟ تمھیں کیا ہوا ؟؟( موسب نے وجہ جاننی چاہی تو اسنے بتایا)

میرے سر میں درد ہورہا تھا تو سردرد کی دوا لینے آئی تھی۔۔۔۔ (تصبیہا اب واقع گھبرا رہی تھی موصب کےاتنے قریب رہنا اس کے لیے مشکل تھا)

اسٹیریج جو دوسروں کہ سر میں درد کرتی ہے آج اس کہ سر میں درد ہو رہا ہے ۔۔۔۔(موصب نے مسکر کہا تو چڑ کر بولی )

کیا مطلب ہے تمہارا ۔۔۔چھوڑو مجھے ۔۔۔۔(تصبیہا نے اپنے آپ کو چھوڑوانے کی سہیی کی تو موصب نے اپنی پکڑ ڈھیلی کردی تو تصبیہا نے اسے دھکا دے کر پیچھے کیا اور باہر چلی گئی۔۔۔۔۔موصب اسے جاتا دیکھتا رہا)

ایک تو سر کا درد اوپر سے کچھ دیر پہلے والی حرکت اسے سونے نہیں دے رہی تھی وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنا سر دبانے لگی ۔۔۔۔

موصب کو نیند نہیں آرہی تھی باربار تصبیہا کا خیال آرہا تھا کہ پتا نہیں اس کہ سر میں درد زیادہ نہیں ہورہا ۔وہ خود بھی اپنی اس حالت سے انجان تھا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے اس کہ ساتھ ۔۔۔۔۔کافی اپنے دل کو سمجھانے کہ بعد جب نہیں مانا تو وہ اٹھا ،ڈرار سے سردرد کی مڈیسن نکالی اور باہر آیا ۔ باہر آیا تو وہ صوفے پر بیٹھی اپنا سر خود ہی دبا رہی تھی۔)

یہ لو ،،کھالو ۔۔۔(موصب نے اس کے آگے مڈیسن کی تو تصبیہا نے پہلے موصب کو دیکھا پھر مڈیسن کو ۔۔مگر لی نہیں )

لو بھی ۔۔۔۔۔(وہ پہلے ہی اپنی حالت سمجھنے سے قاصر تھا اوپر سے وہ مڈیسن نہیں لے رہی تھی ۔وہ جھنجھلاتے ہوئے وہیں مڈیسن رکھ کر کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔تصبیہا کی حیریت کا کوئی ٹھیکانا نہیں تھا ۔وہ موصب کو جاتا دیکھتی رہی ۔۔۔پھر مڈیسن کھا کر سونے لیٹ گئی ۔۔۔۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح جب وہ نماز کے لیے مسجد جانے کہ لیے کمرے سے باہر آیا تو وہ صوفے پر ہی سورہی تھی ۔ وہ وہی کھڑا اسے دیکھنے لگا ۔وہ سوتے ہوئے کسی معصوم سے بچے کی طرح لگ رہی تھی ۔۔۔۔ موصب آگے بڑھا اور اس کے چہرے پر آئے ہوئے بالوں کو پیچھے کیا ۔ پھر سر جھٹک کر باہر چلاگیا ۔۔۔۔۔

واپس آیا تو وہ صوفے پر نہیں تھی ۔۔اس نے ادھر ادھر دیکھا تو کچن سے باہر آئی ہاتھ میں چائے کا کپ تھا۔۔۔موصب اسے دیکھ کر آگے بڑھ گیا ۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ تصبیہا کہاں ہے نظر نہیں آرہی آج ۔۔(سعد نے فیروز سے پوچھا )

یار زیادہ تر وہ چایلڈ واڈ مین ہی پائی جاتی ہے ۔ابھی بھی شرط لگالے وہیں ملے گی ۔۔(فیروز نے بتایا )

یار وہ جو کل بچہ آیا تھا ۔۔کیا نام تھا اس کا حسن ہاں حسن ۔۔وہ کیسا ہے ۔۔اس نے کچھ کھایا یا نہیں ۔۔(سعد نے حسن کے بارے میں پوچھا جو کہ دس سال کا تھا ۔وہ اتنا ضدی تھا کہ کچھ کھا پی نہیں رہا تھا ۔۔۔۔)

کیا ہورہا ہے ؟؟(موسب پیچھے آیا اور سعد کے کندھے پر ہاتھ ماپرتے ہوئے پوچھا اور کرسی آگے کرکے بیٹھ گیا ۔وہ تینوں اس وقت کیفے ٹیریا میں تھے۔۔۔)

کچھ نہیں۔۔۔۔۔ تو بتا کیا چل رہا ہے ؟؟؟؟(فیروز چائے پیتے ہوئے بولا)

کچھ نہیں ۔۔۔۔۔(موصب کی چائے آگئی تھی ،وہ چائے پیتے ہوئے بولا)

اس بچے کا کیا ہوا ؟؟؟(سعد نے موصب سے پوچھا)

کون سا بچہ۔؟(موسب نے ناسمجھی سے پوچھا)

حسن کی بات کررہا ہے ۔۔۔(فیروز نے اسے بتایا)

اچھا وہ ۔۔۔ہاں یار وہ کچھ کھا ہی نہیں رہا ۔کل بھی اسے ڈریپ کے انجیکشن کہ ذریعے خراک دی تھی ۔۔۔(موصب کہ تفصیل بتائی)

مؤصب یہ جہانگیر کیوں آیا تھا یہاں ؟(فیروز نے اس سے جہانگیر کہ بارے میں پوچھا)

وہ مجھ سے ملنے آیا تھا ۔۔(موصب نے سرسی سابتایا)

دور رہنا اس سے ۔۔۔۔۔مجھے وہ بندہ کچھ عجیب لگتا ہے ۔ تو خود سوچ اس جیسا مصرف بندہ یہاں آئے گا صرف تجھ سے ملنے۔(فیروز نے اپنا خدشہ ظاہر کیا)

یار ایسا کچھ بھی نہیں ہے وہ میرا اچھا دوست ہے ۔اسے پتاچلا میں یہاں ہوں تو چلا آیا۔۔(موصب نے اسے سمجھانا چاہا)

ٹھیک ہے تو کہہ رہا ہے تو مان لیتے ہیں مگر احتیات بہتر ہے ۔۔۔(فیروز نے کہا)

چلو میں چلتا ہوں ۔۔(موصب نے چائے ختم کی اٹھ گیا )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لے جاو میں نے نہیں کھانا کوئی کھانا۔۔۔۔۔۔۔(حسن نرس پر چلارہا تھا )

تصبیہا جو کہ وہاں سے گزر رہی تھی اتنی تیز آواز سن کر وہ اندر گئی تو نرس اسے کھانا کھیلانے کے جتن کررہی تھی ۔9

کیا ہوا ؟(تصبیہا نے نرس سے پوچھا )

وہ یہ کھانا نہیں کھارہے ۔میں کب سے کوشیش کررہی ہوں ۔(نرس نے اپنی مشکل بتائی )

اچھا آپ جاہیں یہ مجھے دے دیں ۔۔۔۔(تصبیہا اس نرس سے کہا تو وہ وہاں سے چلی گئی)

ہمممم تو کیا نام ہے آپ کا ؟(تصبیہا نے اس سے پوچھا مگر وہ کچھ نہیں بولا)

اوووو۔۔۔۔۔۔توتم کھانا کیوں نہیں کھا رہے ؟؟؟(تصبیہا نے اس سے دوسرا سوال کیا مگر اس نے پھر کوئی جواب نہیں دیا)

ویسے تم بلکل ٹھیک کر رہے ہو ۔ایسا مریضوں والا کھانا کون کھاتا ہے ۔۔۔(اس نے سوپ کا ایک چمچہ پیا اور برا سا منہ بناکر بولی تو حسن اسے دیکھنے لگا ۔۔پھر بولا )

میں بھی تو یہ ہی کہہ رہا ہووں مگر میری کوئی سن ہی نہیں رہا ۔۔۔(حسن نے بچارا سا منہ بنا کر کہا)

آرے ایسے کیسے کوئی نہیں سن رہا میں ہونا تمہاری دوست میں سنو گی تمہاری بات ۔۔۔مجھ سے دوستی کرو گے۔۔(تسبیہا نے اپنا ہاتھ اس کہ آگے کیا تو پہلے اس نے تصبیہا کہ ہاتھ کو گھورا پھر تصبیہا کو ۔۔۔اور پھر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا)یہ ہوئی نا بات ۔۔۔۔

تصبیہا نے نرس کوبلوایا۔۔۔۔

ایک کام کریں دوسرا سوپ لادیں اور ہان تھوڑا مزے دار لاہیے گا۔۔۔(تصبیہا نے نرس سے کہا اور انکھ مار دی جس سے وہ سمجھ گئی تھی کہ وہی سوپ لانا ہے مگر گرم )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپ کہا جارہی ہیں ؟(موصب نے نرس سے پوچھا )

وہ تصبیہا جی نے مجھے کہا ہے کہ حسن کہ لیے دوسرا سوپ لاوں ۔۔۔۔وہ ہی لینے جارہی ہوں ۔۔(اس نے موصب کو بتایا)

دوسرا سوپ ؟؟؟؟؟؟

جی۔۔۔۔

کہاں ہے وہ؟

وہ حسن کہ روم میں ہیں ۔۔۔(نرس بتاکر چلی گئی اور موصب نے حسن کہ کمرے کا رخ کیا ۔جب وہ وہاں پہنچا تو وہ دونوں ہنس ہنس کر باتین کررہے تھے ۔۔۔۔موصب حیران رہ گیا کہ جو بچہ دو دن سے سوائے چیخنے کہ کچھ نہیں کررہا تھا وہ تسبیہا سے ہنس ہنس کر باتیں کرہا تھا ۔۔۔نرس بھی سوپ لے آئی ۔۔۔

تصبیہا نے اپنے ہاتھ سے اسے سوپ پیلایا اور وہ پی بھی گیا ۔موصب خوش بھی ہوا اور تھوڑا حیران بھی ۔۔۔۔ وہ جب اسے لیٹا کر جانے لگی توحسن بولا)

تم نے کہا تھا کہ اسٹوری سناوگی ۔وہ کہا ہے ؟(وہ منہ بناکر بولا )

اووو ہاں مگر میرے پاس تو کوئی کتاب نہیں ہے ۔۔۔۔میں کل ضرور لے کر آوں گی ۔۔۔(تصبیہا نے اسے بھلانا چاہا مگر وہ ضد کرنے لگا تو موصب نے اپنا موبائل نکال کر تصبیہا کو دیا اور بولا)

اس میں سرچ کر کہ اسے کہانی سنا دو ۔۔۔۔۔(تصبیہا نے موصب سے موبائل لیا اور حسن سے بولی )

ہاں بھئی کون سی کہانی سنو گے ؟(تصبیہا نے موبائل میں دیکھتے ہوئے کہا)

لو اسٹوری ۔۔۔۔۔۔(حسن نے مزے سے کہا تو تصبیہا نے حیریت سے حسن کو دیکھا پھر موصب کو جو چہرا نیچے کیے مسکرا رہا تھا ۔تصبیہا نے موصب کو گھور کہ دیکھا )

میں جارہا ہو ۔ کام ہوجائے تو موبائل دے ینا۔۔۔(موصب کہہ کر کمرے سے چلا گیا اور تصبیہا اسے اسٹورے سنانے لگی ۔ وہ اسٹوری سنتے سنتے سوگیا تو تصبیہا نے وہاں سے اگئی ۔ موصب کا موبائل دینے اس کہ کیبن میں گئی ۔)

تمہارا موبائل ۔۔۔۔(تصبیہا نے اس کا موبائل اس کے آگے کیا)

سنادی لو اسٹوری ۔۔۔(موصب نے موبائل لیتے ہوئے شریر لہجے میں کہا )

ہاں سنادی ۔۔۔(تصبیہا نے تھکے ہوئے انداز میں کہا)

تھینکس ۔۔۔(موصب نے نرمی سے کہا)

کس لیے ،اسٹوری سنانے کے لیے۔۔؟(وہ نا سمجھی سے بولی)

نہیں ۔۔حسن کو سنھالنے کہ لیے۔۔۔۔

اووووو اچھا۔۔۔۔(اس نے اوو کو لمبا کرتے ہوئے کہا ) خیر چلتی ہوں (وہ جانے لگی پھر کچھ یاد انے پر مڑی اور موصب سے بولی)

ایک بات پوچھو موصب ؟؟؟

ہاں پوچھو۔۔۔۔(وہ کھچ زیادہ ہی نرم پیش ارہا تھا)
حسن کو کیا ہوا ہے۔۔۔میرا مطلب ہے کہ اسے کیا بیماری ہے؟(ایک سوال جو اسے کب سے پریشان کررہا تھا آخر پوچھ ہی لیا)

موصب نے لمبی سانس لی پھر بولا) اسے کنسر ہے ۔۔۔۔وہ بھی لاسٹ اسٹیج ۔۔۔(موصب نے دکھ سے بتایا)

کیا۔۔۔۔۔(تصبیہا کی آواز کسی کھائی سے آتی معلوم ہوئی ۔) مگر وہ تو بہت چھوٹا ہے ؟ (اسے نہیں پتا وہ کیا کہہ رہی تھی)

بیماری عمر نہیں دیکھتی تصبیہا ۔۔۔(موصب نے اس کی انکھوں میں آنسو دیکھلیے تھے۔۔۔)

(تصبیہا بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔وہ اٹھی اور مرے مرے قدموں سے باہر نکلی۔۔۔موصب کو اسے دیکھ کر دکھ ہوا )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments